Thursday, 1 October 2015

زخم بن جائے کبھی زخم کا مرہم بن جائے

زخم بن جائے کبھی زخم کا مرہم بن جائے
راس آ جائے تو کیا کیا نہ تِرا غم بن جائے
عام حالات میں کچھ بھی نہیں اک قطرۂ آب
آنکھ میں اشک بنے، پھول پہ شبنم بن جائے
کچھ نہ کچھ شوق میں میرے ہی کمی ہے ورنہ
غم کا عالم بھی تِرے حسن کا عالم بن جائے
میں کہ جس راہ سے گزروں وہ بنے راہِ صلیب
تُو کہ جس سنگ کو چھُو لے، بُتِ مریم بن جائے 
زندگی درد کے سائے میں سکوں پاتی ہے
ورنہ حالات تو وہ ہیں کہ جہنم بن جائے
محفلِ دوست میں چھلکے تو چھلکتا ہی رہے
جامِ مے، آج مِرا دیدۂ پُرنم بن جائے
اک ذرا چھیڑیں تو گستاخ ہوا کے جھونکے
یوں اڑے زلف تِری، حسن کا پرچم بن جائے
سالِ نو کے لیے یہ لب پہ دعا ہے تاباںؔ
لطف کا دور بنے، پیار کا موسم بن جائے

غلام ربانی تاباں

No comments:

Post a Comment