Tuesday 27 October 2015

ابھی تو آنکھ میں نادیدہ خواب باقی ہیں

ابھی تو آنکھ میں نادیدہ خواب باقی ہیں
جو وقت لکھ نہیں پایا، وہ باب باقی ہیں
سزا جو اگلے صحیفوں میں تھی تمام ہوئی
مگر صحیفۂ دل💔 کے عذاب باقی ہیں
کرو گے جمع بھلا کیسے دل کے شیشوں کو
ابھی تو دشتِ فلک میں شہاب باقی ہیں
اڑا کے لے گئی آندھی وہ حرف حرف کتاب
جو صفحہ صفحہ ہیں دل کے سراب باقی ہیں
وہی تو وقت کی بے چہرگی ہے اپنی شناخت
کہ جس پہ اب بھی ہزاروں نقاب باقی ہیں
لہو کے پھول خزاں آشنا نہیں تنویرؔ
کہ دشت دشت، شفق کے گلاب باقی ہیں

تنویر احمد علوی

No comments:

Post a Comment