Sunday 25 October 2015

رستہ کسی واقف سے بدلنا نہیں آیا

رستہ کسی واقف سے بدلنا نہیں آیا
دنیا کی روِش پر مجھے چلنا نہیں آیا
سر پِیٹ کے روتے ہیں غمِ ہجر میں عُشاق
میں ہوں کہ مجھے ہاتھ بھی مَلنا نہیں آیا
بیدار ہوئے نیند سے ہر صبح سلامت
کیوں پھر بھی سمجھ موت کا ٹلنا نہیں آیا
ڈھلوان تھی اور دور تلک برف کی چادر
میں کوہ سے پھِسلا تو سنبھلنا نہیں آیا

رؤف امیر

No comments:

Post a Comment