اب اور کوئی نہیں اپنا سہارا باقی
اب ہے سینے میں فقط درد تمہارا باقی
اس کے آنے کی ہے موہوم امید ابھی
آسماں پر ہے ابھی ایک ستارا باقی
قریۂ جاں میں بھی ہے دعوتِ دیدار بھی ہے
باقی آثار ہیں بس قہرِ خدا کے ہر سُو
کوئی طوفاں ہے نہ کشتی نہ کنارا باقی
دل و جاں بھی نہیں دنیا بھی نہیں ہے اپنی
سوچتے ہیں کہ یہاں کیا ہے ہمارا باقی
جانے کس سمت ہوئے لوگ روانہ سارے
ایک میں شہر میں ہوں درد کا مارا باقی
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment