Sunday 25 October 2015

اب اور کوئی نہیں اپنا سہارا باقی

اب اور کوئی نہیں اپنا سہارا باقی
اب ہے سینے میں فقط درد تمہارا باقی
اس کے آنے کی ہے موہوم امید ابھی
آسماں پر ہے ابھی ایک ستارا باقی
قریۂ جاں میں بھی ہے دعوتِ دیدار بھی ہے
آنکھ باقی نہیں، لیکن ہے نظارا باقی
باقی آثار ہیں بس قہرِ خدا کے ہر سُو
کوئی طوفاں ہے نہ کشتی نہ کنارا باقی
دل و جاں بھی نہیں دنیا بھی نہیں ہے اپنی
سوچتے ہیں کہ یہاں کیا ہے ہمارا باقی
جانے کس سمت ہوئے لوگ روانہ سارے
ایک میں شہر میں ہوں درد کا مارا باقی

منور ہاشمی

No comments:

Post a Comment