Tuesday 27 October 2015

ہنگامہ ہائے گرمی بازار لے چلے

ہنگامہ ہائے گرمئ بازار لے چلے
تہمت سی شے اٹھا کے خریدار لے چلے
یہ بھی خیالِ خاطرِ احباب ہے کہ ہم
دل میں چھپا کے دشنۂ اغیار لے چلے
کیا بستیاں اجاڑ کے وارتگانِ شوق
صحرا میں حسرتِ در و دیوار لے چلے
ہر چند ناگزیر ہے لیکن نہ اس قدر
جس سمت چاہے ہے وقت کی رفتار لے چلے
زلفوں کی نرم چھاؤں میں وہ نیند تھی کہ بس
ہم پھر بھی اپنے ذہن کو بیدار لے چلے

رسا چغتائی

No comments:

Post a Comment