ہنگامہ ہائے گرمئ بازار لے چلے
تہمت سی شے اٹھا کے خریدار لے چلے
یہ بھی خیالِ خاطرِ احباب ہے کہ ہم
دل میں چھپا کے دشنۂ اغیار لے چلے
کیا بستیاں اجاڑ کے وارتگانِ شوق
صحرا میں حسرتِ در و دیوار لے چلے
ہر چند ناگزیر ہے لیکن نہ اس قدر
جس سمت چاہے ہے وقت کی رفتار لے چلے
زلفوں کی نرم چھاؤں میں وہ نیند تھی کہ بس
ہم پھر بھی اپنے ذہن کو بیدار لے چلے
تہمت سی شے اٹھا کے خریدار لے چلے
یہ بھی خیالِ خاطرِ احباب ہے کہ ہم
دل میں چھپا کے دشنۂ اغیار لے چلے
کیا بستیاں اجاڑ کے وارتگانِ شوق
صحرا میں حسرتِ در و دیوار لے چلے
ہر چند ناگزیر ہے لیکن نہ اس قدر
جس سمت چاہے ہے وقت کی رفتار لے چلے
زلفوں کی نرم چھاؤں میں وہ نیند تھی کہ بس
ہم پھر بھی اپنے ذہن کو بیدار لے چلے
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment