Thursday 29 October 2015

دشت کی پیاس کسی طور بجھائی جاتی

دشت کی پیاس کسی طور بجھائی جاتی
کوئی تصویر ہی پانی کی دکھائی جاتی
ایک دریا چلا آیا ہے مِرے ساتھ، اسے
روکنےکے لیے دیوار اٹھائی جاتی
ہم نئے نقش بنانے کا ہنر جانتے ہیں
ایسا ہوتا تو نئی شکل بنائی جاتی
اب یہ آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں ہیں ہم سے
دل کی آواز ہی پہلے نہ سنائی جاتی
صرف آزار اٹھانے کی ہمیں عادت ہے
ہم پہ سایہ نہیں دیوار گرائی جاتی

رمزی آثم

No comments:

Post a Comment