دشت کی پیاس کسی طور بجھائی جاتی
کوئی تصویر ہی پانی کی دکھائی جاتی
ایک دریا چلا آیا ہے مِرے ساتھ، اسے
روکنےکے لیے دیوار اٹھائی جاتی
ہم نئے نقش بنانے کا ہنر جانتے ہیں
ایسا ہوتا تو نئی شکل بنائی جاتی
اب یہ آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں ہیں ہم سے
دل کی آواز ہی پہلے نہ سنائی جاتی
صرف آزار اٹھانے کی ہمیں عادت ہے
ہم پہ سایہ نہیں دیوار گرائی جاتی
کوئی تصویر ہی پانی کی دکھائی جاتی
ایک دریا چلا آیا ہے مِرے ساتھ، اسے
روکنےکے لیے دیوار اٹھائی جاتی
ہم نئے نقش بنانے کا ہنر جانتے ہیں
ایسا ہوتا تو نئی شکل بنائی جاتی
اب یہ آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں ہیں ہم سے
دل کی آواز ہی پہلے نہ سنائی جاتی
صرف آزار اٹھانے کی ہمیں عادت ہے
ہم پہ سایہ نہیں دیوار گرائی جاتی
رمزی آثم
No comments:
Post a Comment