آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو میرا گھر بھی آئے گا
اچھی نہیں نزاکتِ احساس اس قدر بھی آئے گا
شیشہ اگر بنو گے تو پتھر بھی آئے گا
سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروانِ شوق
دیر و حرام میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا
بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا
سرشار ہو کے جا چکے یارانِ مے کدہ
ساقی! ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا
جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا
نوشاد علی
No comments:
Post a Comment