Thursday 22 October 2015

آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا

آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو میرا گھر بھی آئے گا
اچھی نہیں نزاکتِ احساس اس قدر بھی آئے گا
شیشہ اگر بنو گے تو پتھر بھی آئے گا
سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروانِ شوق
رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا
دیر و حرام میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا
بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا
سرشار ہو کے جا چکے یارانِ مے کدہ
ساقی! ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا
جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا

نوشاد علی

No comments:

Post a Comment