تشنگئ لب پہ ہم عکسِ آب لکھیں گے
جن کا گھر نہیں کوئی وہ گھر کے خواب لکھیں گے
تم کو کیا خبر اس کی زندگی پہ کیا بیتی
زندگی کے زخموں پر ہم کتاب لکھیں گے
حرزِ جاں سمجھتے ہیں ہم وطن کی مٹی کو
اپنے گھر کے خاروں کو ہم گلاب لکھیں گے
جس ہوا نے کاٹی ہیں خامشی کی زنجیریں
اس ہوا کے لہجے کو انقلاب لکھیں گے
جھوٹ کی پرستش میں عمر جن کی گزری ہے
تیرگئ شب کو وہ آفتاب لکھیں گے
سُولیوں پہ جھُولے گا بد نہاد ہر منصف
منصفی کا جب بھی ہم خود نصاب لکھیں گے
اس غزل کے پرتو میں بے گھروں کی باتیں ہیں
بے گھروں کے نام اس کا انتساب لکھیں گے
ہر دلیل کاٹیں گے ہم دلیلِ روشن سے
بخشؔ سو سوالوں کا اک جواب لکھیں گے
جن کا گھر نہیں کوئی وہ گھر کے خواب لکھیں گے
تم کو کیا خبر اس کی زندگی پہ کیا بیتی
زندگی کے زخموں پر ہم کتاب لکھیں گے
حرزِ جاں سمجھتے ہیں ہم وطن کی مٹی کو
اپنے گھر کے خاروں کو ہم گلاب لکھیں گے
جس ہوا نے کاٹی ہیں خامشی کی زنجیریں
اس ہوا کے لہجے کو انقلاب لکھیں گے
جھوٹ کی پرستش میں عمر جن کی گزری ہے
تیرگئ شب کو وہ آفتاب لکھیں گے
سُولیوں پہ جھُولے گا بد نہاد ہر منصف
منصفی کا جب بھی ہم خود نصاب لکھیں گے
اس غزل کے پرتو میں بے گھروں کی باتیں ہیں
بے گھروں کے نام اس کا انتساب لکھیں گے
ہر دلیل کاٹیں گے ہم دلیلِ روشن سے
بخشؔ سو سوالوں کا اک جواب لکھیں گے
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment