خود مٹ کے محبت کی تصویر بنائی ہے
اک شمع جلائی ہے اک شمع بجھائی ہے
آغازِ شبِ غم سے کیوں سونے لگے تارے
شاید مِری آنکھوں سے کچھ نیند چرائی ہے
میں خود بھی تپش جس کی سہتے ہوئے ڈرتا ہوں
ہر چند سمجھتا تھا جھوٹے ہیں تِرے وعدے
لیکن تِرے وعدوں نے کیا راہ دکھائی ہے
جو کچھ بھی سمجھ لے اب مرضی ہے زمانے کی
شیشے کی کہانی ہے، پتھر نے سنائی ہے
مانا کہ محبت ہی بنیاد ہے ہستی کی
نوشادؔ مگر تجھ کو یہ راس کب آئی ہے
نوشاد علی
No comments:
Post a Comment