اقتباس از مثنوی گلزار نسیم
گلچیں نے وہ پھول جب اڑایا
اور غنچہ صبح کھلکھلایا
وہ سبز باغ خواب آرام
اٹھی نکہت سی فرش گل سے
منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی
دیکھا تو، وہ گل ہوا ہوا ہے
کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے
گھبرائی کہ ہیں، کدھر گیا گل
جھنجلائی کہ کون دے گیا جل
ہے ہے، مِرا پھول لے گیا کون؟
ہے ہے! مجھے خار دے گیا کون؟
ہاتھ اس پہ اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو گل اڑا نہیں ہے
اپنوں میں سے پھول لے گیا کون؟
بے گانہ تھا سبزہ کے سوا کون؟
شبنم کے سوا چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا؟
جس کف میں وہ گل ہو داغ ہو جائے
جس گھر میں ہو گل چراغ ہو جائے
دیا شنکر نسیم
No comments:
Post a Comment