Thursday 29 October 2015

یوں تو نہیں کہ پہلے سہارے بنائے تھے

یوں تو نہیں کہ پہلے سہارے بنائے تھے
دریا بنا کے اس نے کنارے بنائے تھے
کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی
پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے
اب عشرت و نشاط کا سامان ہوں تو ہوں
ہم نے تو دِیپ خوف کے مارے بنائے تھے
دی ہے اسی نے پیاس بجھانے کو آگ بھی
پانی سے جسم جس نے ہمارے بنائے تھے
پھر یوں ہوا کہ اس کی زباں کاٹ دی گئی
وہ جس نے گفتگو کے اشارے بنائے تھے
صحرا پہ بادلوں کا ہنر کھل نہیں سکا
قطرے بنائے تھے کہ شرارے بنائے تھے
شاہدؔ خفا تھا کاتبِ تقدیر اس لیے
ہم نے زمیں پہ اپنے ستارے بنائے تھے

شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment