یوں تو نہیں کہ پہلے سہارے بنائے تھے
دریا بنا کے اس نے کنارے بنائے تھے
کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی
پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے
اب عشرت و نشاط کا سامان ہوں تو ہوں
ہم نے تو دِیپ خوف کے مارے بنائے تھے
دی ہے اسی نے پیاس بجھانے کو آگ بھی
پانی سے جسم جس نے ہمارے بنائے تھے
پھر یوں ہوا کہ اس کی زباں کاٹ دی گئی
وہ جس نے گفتگو کے اشارے بنائے تھے
صحرا پہ بادلوں کا ہنر کھل نہیں سکا
قطرے بنائے تھے کہ شرارے بنائے تھے
شاہدؔ خفا تھا کاتبِ تقدیر اس لیے
ہم نے زمیں پہ اپنے ستارے بنائے تھے
دریا بنا کے اس نے کنارے بنائے تھے
کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی
پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے
اب عشرت و نشاط کا سامان ہوں تو ہوں
ہم نے تو دِیپ خوف کے مارے بنائے تھے
دی ہے اسی نے پیاس بجھانے کو آگ بھی
پانی سے جسم جس نے ہمارے بنائے تھے
پھر یوں ہوا کہ اس کی زباں کاٹ دی گئی
وہ جس نے گفتگو کے اشارے بنائے تھے
صحرا پہ بادلوں کا ہنر کھل نہیں سکا
قطرے بنائے تھے کہ شرارے بنائے تھے
شاہدؔ خفا تھا کاتبِ تقدیر اس لیے
ہم نے زمیں پہ اپنے ستارے بنائے تھے
شاہد ذکی
No comments:
Post a Comment