Friday 23 October 2015

بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو

بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو
تعلق کی گراں باری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو
بھٹک جاتی ہیں تم سے دُور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو، مِری آنکھوں پہ اپنی اُنگلیاں رکھ دو
برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈُوب تو جائے
ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو
دُھواں سگرٹ کا، بوتل کا نشہ سب دُشمنِ جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو
بہت اچھا ہے یارو! محفلوں میں ٹُوٹ کر مِلنا
کوئی تپتی ہوئی دُوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو
نقوشِ خال و خد میں دلنوازی کی ادا کم ہے
حجاب آمیز ان آنکھوں میں تھوڑی شوخیاں رکھ دو
ہمِیں پر ختم کیوں ہو داستانِ خانہ ویرانی
جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو

 زبیر رضوی

No comments:

Post a Comment