دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا، مگر آباد نہیں
ڈھونڈنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے، جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اُجاڑا گُلشن
پھُول کہتے رہے، ہم پھُول ہیں صیاد نہیں
حُسن سے چُوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھُول ہوئی ہو، یہ مجھے یاد نہیں
بربطِ ماہ پہ مِضرابِ فُغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا، تمہیں یاد نہیں
لاؤ! اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا، مگر آباد نہیں
ڈھونڈنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے، جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اُجاڑا گُلشن
پھُول کہتے رہے، ہم پھُول ہیں صیاد نہیں
حُسن سے چُوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھُول ہوئی ہو، یہ مجھے یاد نہیں
بربطِ ماہ پہ مِضرابِ فُغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا، تمہیں یاد نہیں
لاؤ! اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر نظامی
No comments:
Post a Comment