غضب کی کاٹ تھی اب کے ہوا کے طعنوں میں
شگاف پڑ گئے ہیں بے زباں چٹانوں میں
یہ اور بات کہ پتھر کے ہونٹ ہیں ورنہ
ہم ایک آگ لیے پھرتے ہیں دہانوں میں
سیاہ شہر کی قسمت میں میرا فیض کہاں
چراغِ نذر ہوں، جلتا ہوں آستانوں میں
سکوت کو نہ کبھی کر صدا سے آلودہ
کہ یہ زباں ہے مقدس تریں زبانوں میں
بگولہ بن کے اٹھا تو میں تھا خرابے سے
بپا ہوا نہ کوئی حشر آسمانوں میں
میں اپنے آپ میں یا رب! کبھی نہ پایا گیا
چھپا رکھا ہے مجھے تُو نے کن خزانوں میں
سخن شناس فصیلوں کا دیدنی ہے سکوت
سخن طراز ہیں زنجیریں قید خانوں میں
رفیق راز
شگاف پڑ گئے ہیں بے زباں چٹانوں میں
یہ اور بات کہ پتھر کے ہونٹ ہیں ورنہ
ہم ایک آگ لیے پھرتے ہیں دہانوں میں
سیاہ شہر کی قسمت میں میرا فیض کہاں
چراغِ نذر ہوں، جلتا ہوں آستانوں میں
سکوت کو نہ کبھی کر صدا سے آلودہ
کہ یہ زباں ہے مقدس تریں زبانوں میں
بگولہ بن کے اٹھا تو میں تھا خرابے سے
بپا ہوا نہ کوئی حشر آسمانوں میں
میں اپنے آپ میں یا رب! کبھی نہ پایا گیا
چھپا رکھا ہے مجھے تُو نے کن خزانوں میں
سخن شناس فصیلوں کا دیدنی ہے سکوت
سخن طراز ہیں زنجیریں قید خانوں میں
رفیق راز
No comments:
Post a Comment