ستاروں کی ضیا بن کر فرشتوں کا سلام آیا
زبانِ بسملِ وارفتہ پر جب ان کا نام آیا
دو عالم نور میں ڈوبے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
بھری محفل میں کیا بے پردہ وہ ماہِ تمام آیا
وہ پابندِ محبت ہو گئے اٹھتی جوانی میں
جوانی ہو گئی آسودہ جب ان کا سلام آٰیا
تِرے حسنِ نظر کا کیا یہی معیار ہے ساقی
کبھی ہم کو نہ اپنایا، کبھی ہم تک نہ جام آیا
میں آخر موت کا کب تک رہوں شرمندۂ احساں
نہ وہ آئے، نہ اب تک ان کے آنے کا پیام آیا
ہوئی مجھ سے نہ تسکینِ غمِ پنہاں بھی اے بسملؔ
مِری ہستی کا شیرازہ کسے کے بھی نہ کام آیا
زبانِ بسملِ وارفتہ پر جب ان کا نام آیا
دو عالم نور میں ڈوبے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
بھری محفل میں کیا بے پردہ وہ ماہِ تمام آیا
وہ پابندِ محبت ہو گئے اٹھتی جوانی میں
جوانی ہو گئی آسودہ جب ان کا سلام آٰیا
تِرے حسنِ نظر کا کیا یہی معیار ہے ساقی
کبھی ہم کو نہ اپنایا، کبھی ہم تک نہ جام آیا
میں آخر موت کا کب تک رہوں شرمندۂ احساں
نہ وہ آئے، نہ اب تک ان کے آنے کا پیام آیا
ہوئی مجھ سے نہ تسکینِ غمِ پنہاں بھی اے بسملؔ
مِری ہستی کا شیرازہ کسے کے بھی نہ کام آیا
بسمل دہلوی
No comments:
Post a Comment