Tuesday 27 October 2015

چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا

چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا 
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا 
ہر ایک پائے شکستہ میں تھی مِری زنجیر 
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
میں ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا خود ہی 
کہ اپنے آپ سے بچنا محال میرا تھا 
ہر ایک سمت سے سنگِ صدا کی بارش تھی 
میں چپ رہا کہ یہی کچھ مآل میرا تھا 
تِرا خیال تھا تازہ ہوا کے جھونکے میں 
جو گرد اڑ کے گئی ہے ملال میرا تھا 
میں رو پڑا ہوں تبسمؔ سیاہ راتوں میں 
غروب ماہ میں شاید زوال میرا تھا

مغنی تبسم

No comments:

Post a Comment