چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
ہر ایک پائے شکستہ میں تھی مِری زنجیر
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
میں ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا خود ہی
ہر ایک سمت سے سنگِ صدا کی بارش تھی
میں چپ رہا کہ یہی کچھ مآل میرا تھا
تِرا خیال تھا تازہ ہوا کے جھونکے میں
جو گرد اڑ کے گئی ہے ملال میرا تھا
میں رو پڑا ہوں تبسمؔ سیاہ راتوں میں
غروب ماہ میں شاید زوال میرا تھا
مغنی تبسم
No comments:
Post a Comment