ایک ہی مسئلہ تا عمر مِرا حل نہ ہوا
نیند پوری نہ ہوئی خواب مکمل نہ ہوا
شہرِ دل کا جو مکیں ہے وہ بچھڑتا کب ہے
جس قدر دُور گیا، آنکھ سے اوجھل نہ ہوا
آج بھی دل کی زمیں خشک رہی، تشنہ رہی
روشنی چھَن کے تیرے رُخ کی نہ مجھ تک پہنچے
ایک دیوار ہوئی، یہ کوئی آنچل نہ ہوا
جن کو اِک عمر کا نذرانہ دیے بیٹھے ہیں
آج تک ان سے تعارف بھی مفصل نہ ہوا
اُن سے ملتے ہیں، بچھڑ جاتے ہیں، پھر ملتے ہیں
زندہ رہنے کا عمل ہم سے مسلسل نہ ہوا
جس پہ رکھنی تھی مجھے اپنی اساسِ ہستی
اپنی قسمت میں منورؔ وہی اِک پَل نہ ہوا
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment