Thursday 22 October 2015

اور کیا محبت میں حال زار ہستی ہے

اور کیا محبت میں حالِ زارِ ہستی ہے
سر وبالِ گردن ہے، جان بارِ ہستی ہے
دل اِدھر ہے پژمُردہ، جاں اُدھر ہے افسُردہ
کس کو ان حوادث پر اعتبارِ ہستی ہے
آسماں اسے پِیسے، آپ اس کو ٹھُکرائیں
پائمال صد آفت، خاکسارِ ہستی ہے
سینکڑوں تمنائیں دم بدم کھٹکتی ہیں
دل نہیں ہے پہلو میں، خارزارِ ہستی ہے
غُنچہ مُسکراتے ہی پھول بن کے مُرجھایا
یہ فضائے عالم ہے، یہ بہارِ ہستی ہے
کچھ سکون حاصل ہو، زندگی میں ناممکن
ہر نفس سے وابستہ، انتشارِ ہستی ہے
سب نمائشیں وقتی، سب حقیقتیں فرضی
جس قدر زمانے میں کاروبارِ ہستی ہے
کوئی کیا ہنسے احسن جبکہ دہرِ فانی میں
سرخوشِ مسرت بھی سوگوارِ ہستی ہے

احسن مارہروی

No comments:

Post a Comment