Tuesday, 27 October 2015

جسم دیوار ہے دیوار میں در کرنا ہے

جسم دیوار ہے، دیوار میں در کرنا ہے
روح اک غار ہے اس غار میں گھر کرنا ہے
ایک ہی قطرہ تو ہے اشکِ ندامت کا بہت
کون سے دشت و بیابان کو تر کرنا ہے
خاک ہو جانے پہ اے خاک بسر کیوں ہو بضد
کیا تمہیں دوشِ ہوا پر بھی سفر کرنا ہے
اب ان آنکھوں میں وہ دریا کہاں وہ چشمے کہاں
چند قطرے ہیں جنہیں لعل و گہر کرنا ہے
گلِ نوخیز کو تیشہ بھی بنا دے یا رب
سنگِ لب بستہ کے سینے میں اثر کرنا ہے
ایک نیزے پہ لگانے ہیں کئی میوۂ سر
ایک ٹہنی کو ثمر دار شجر کرنا ہے

رفیق راز

No comments:

Post a Comment