شہر نے اس کے لیے دار سجا رکھی ہے
جس نے تحریک محبت کی چلا رکھی ہے
دوستوں نے سرِ بازار اچھالا اس کو
بات جو میں نے ابھی خود سے چھپا رکھی ہے
اک تیرے درد کی دولت کو سنبھالے رکھا
ایک لمحہ میرے آگے نہ رکا وہ منظر
میں نے جس کے لیے بینائی بچا رکھی ہے
ہو نہ پائی کبھی تعمیر کی حسرت پوری
بہتے پانی پہ گھروندے کی بِنا رکھی ہے
آئینہ بھی نہ منورؔ ہمیں پہچان سکا
ہم نے رو رو کے عجب شکل بنا رکھی ہے
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment