کوئی ہوتا تو ہونے کی دیتا خبر، گھر میں کوئی نہیں
دستکیں میں دئیے جا رہا ہوں مگر گھر میں کوئی نہیں
نِصف شب کا عمل، قفل بیرون در، دورِ شورِ سگاں
کر کے آیا ہوں طے کتنا لمبا سفر گھر میں کوئی نہیں
جیسے یکدم کہیں سے بلا آئے گی مجھ کو کھا جائے گی
ایک بچے کی مانند لگتا ہے ڈر، گھر میں کوئی نہیں
آتے جاتے ہوئے کوئی شاید رکے مجھ سے باتیں کرے
آن بیٹھا ہوں گھبرا کے دہلیز پر، گھر میں کوئی نہیں
آج سوؤں گا میں بے خطر دن چڑھے تک بارے ٹھاٹھ سے
آج روؤں گا میں خوب دل کھول کر، گھر میں کوئی نہیں
دستکیں میں دئیے جا رہا ہوں مگر گھر میں کوئی نہیں
نِصف شب کا عمل، قفل بیرون در، دورِ شورِ سگاں
کر کے آیا ہوں طے کتنا لمبا سفر گھر میں کوئی نہیں
جیسے یکدم کہیں سے بلا آئے گی مجھ کو کھا جائے گی
ایک بچے کی مانند لگتا ہے ڈر، گھر میں کوئی نہیں
آتے جاتے ہوئے کوئی شاید رکے مجھ سے باتیں کرے
آن بیٹھا ہوں گھبرا کے دہلیز پر، گھر میں کوئی نہیں
آج سوؤں گا میں بے خطر دن چڑھے تک بارے ٹھاٹھ سے
آج روؤں گا میں خوب دل کھول کر، گھر میں کوئی نہیں
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment