Tuesday, 27 October 2015

اک خوف مجھے صبح کے ہنگام سے آیا

اک خوف مجھے صبح کے ہنگام سے آیا
مہماں نہ چلا جائے جو کل شام سے آیا
میرے لیے سرمایۂ توقیر رہے گا
اک سنگِ ملامت جو تِرے بام سے آیا
ہر شخص ہوا جاتا ہے اب عشق سے تائب
سوچوں میں تغیر میرے انجام سے آیا
دل اپنا تھا افسردہ و پژمردہ و مردہ
اِک زیست کا جذبہ تِرے پیغام سے آیا
گر حرفِ غلط ہے تو منورؔ کو مٹا دو
لیکن یہ اجالا جو اسی نام سے آیا

منور ہاشمی

No comments:

Post a Comment