اک خوف مجھے صبح کے ہنگام سے آیا
مہماں نہ چلا جائے جو کل شام سے آیا
میرے لیے سرمایۂ توقیر رہے گا
اک سنگِ ملامت جو تِرے بام سے آیا
ہر شخص ہوا جاتا ہے اب عشق سے تائب
دل اپنا تھا افسردہ و پژمردہ و مردہ
اِک زیست کا جذبہ تِرے پیغام سے آیا
گر حرفِ غلط ہے تو منورؔ کو مٹا دو
لیکن یہ اجالا جو اسی نام سے آیا
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment