پورا نہ مجھ سے ہو کوئی وعدہ، جیوں نہیں
چل تو پڑوں مگر سرِ جادہ، جیوں نہیں
کچھ کارِ خیر سوچ تو رکھا ہے کیا پتا
رہ جائے دل کا دل میں ارادہ، جیوں نہیں
ممکن ہے یہ بھی اور یوں ہی چند سال تک
اوڑھے رکھوں بدن کا لبادہ، جیوں نہیں
کچھ لوگ چاہتے ہیں رہے تنگ میرا ہاتھ
اک دن بھی زندگی میں کشادہ، جیوں نہیں
شامِ وِداع یہ اسے بتلا دیا امیرؔ
شاید میں اس کے بعد زیادہ جیوں نہیں
چل تو پڑوں مگر سرِ جادہ، جیوں نہیں
کچھ کارِ خیر سوچ تو رکھا ہے کیا پتا
رہ جائے دل کا دل میں ارادہ، جیوں نہیں
ممکن ہے یہ بھی اور یوں ہی چند سال تک
اوڑھے رکھوں بدن کا لبادہ، جیوں نہیں
کچھ لوگ چاہتے ہیں رہے تنگ میرا ہاتھ
اک دن بھی زندگی میں کشادہ، جیوں نہیں
شامِ وِداع یہ اسے بتلا دیا امیرؔ
شاید میں اس کے بعد زیادہ جیوں نہیں
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment