رُت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
بادِ خُوشرنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
اجنبیت کا وہ عالم ہے کہ ہر آن یہاں
اپنا گھر بھی ہمیں اغیار کا گھر لگتا ہے
کھا لیا ہے تو اسے دوست اُگلتے کیوں ہو
ایسے پیڑوں پہ تو ایسا ہی ثمر لگتا ہے
دردِ ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
بزمِ شاہی میں وہی لوگ سر افراز ہوئے
جن کے کاندھوں پہ ہمیں موم کا سر لگتا ہے
منزلِ سخت سے ہم یوں تو نکل آئے ہیں
اور جو باقی ہے، قیامت کا سفر لگتا ہے
اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
بادِ خُوشرنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
اجنبیت کا وہ عالم ہے کہ ہر آن یہاں
اپنا گھر بھی ہمیں اغیار کا گھر لگتا ہے
کھا لیا ہے تو اسے دوست اُگلتے کیوں ہو
ایسے پیڑوں پہ تو ایسا ہی ثمر لگتا ہے
دردِ ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
بزمِ شاہی میں وہی لوگ سر افراز ہوئے
جن کے کاندھوں پہ ہمیں موم کا سر لگتا ہے
منزلِ سخت سے ہم یوں تو نکل آئے ہیں
اور جو باقی ہے، قیامت کا سفر لگتا ہے
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment