دل سا آباد مکاں ہم سے نہ ڈھایا جائے
ہائے وہ نام جو ہم سے نہ بھُلایا جائے
دُھوپ کے رُخ پہ کوئی تان دو کالی چادر
سایۂ گُل میں کوئی ناز اُٹھایا جائے
ہم سے مِل کے کوئی کہتا تھا سرِ کوچۂ دل
درد کی دولتِ نایاب کو پایا جائے
ہم چراغوں میں رہے، چاند کے آنگن میں پلے
ہاں ہمیں انجمنِ شب میں جلایا جائے
وادئ شب میں جو مِل جائے رفاقت کوئی
صبح تک رہگزرِ دل کو جگایا جائے
یہ مِرے شہر کے خودبِین و خود آرا پیکر
میلے ہو جائیں، اگر ہاتھ لگایا جائے
خاطرِ سادہ دلاں ہم سے یہ چاہے ہے زبیرؔ
نقش اِک اور بھی پانی پہ بنایا جائے
ہائے وہ نام جو ہم سے نہ بھُلایا جائے
دُھوپ کے رُخ پہ کوئی تان دو کالی چادر
سایۂ گُل میں کوئی ناز اُٹھایا جائے
ہم سے مِل کے کوئی کہتا تھا سرِ کوچۂ دل
درد کی دولتِ نایاب کو پایا جائے
ہم چراغوں میں رہے، چاند کے آنگن میں پلے
ہاں ہمیں انجمنِ شب میں جلایا جائے
وادئ شب میں جو مِل جائے رفاقت کوئی
صبح تک رہگزرِ دل کو جگایا جائے
یہ مِرے شہر کے خودبِین و خود آرا پیکر
میلے ہو جائیں، اگر ہاتھ لگایا جائے
خاطرِ سادہ دلاں ہم سے یہ چاہے ہے زبیرؔ
نقش اِک اور بھی پانی پہ بنایا جائے
زبیر رضوی
No comments:
Post a Comment