Friday 23 October 2015

دل سا آباد مکاں ہم سے نہ ڈھایا جائے

دل سا آباد مکاں ہم سے نہ ڈھایا جائے
ہائے وہ نام جو ہم سے نہ بھُلایا جائے
دُھوپ کے رُخ پہ کوئی تان دو کالی چادر
سایۂ گُل میں کوئی ناز اُٹھایا جائے
ہم سے مِل کے کوئی کہتا تھا سرِ کوچۂ دل
درد کی دولتِ نایاب کو پایا جائے
ہم چراغوں میں رہے، چاند کے آنگن میں پلے
ہاں ہمیں انجمنِ شب میں جلایا جائے
وادئ شب میں جو مِل جائے رفاقت کوئی
صبح تک رہگزرِ دل کو جگایا جائے
یہ مِرے شہر کے خودبِین و خود آرا پیکر
میلے ہو جائیں، اگر ہاتھ لگایا جائے
خاطرِ سادہ دلاں ہم سے یہ چاہے ہے زبیرؔ
نقش اِک اور بھی پانی پہ بنایا جائے

زبیر رضوی

No comments:

Post a Comment