Thursday 29 October 2015

ترے فراق میں دل سے نکال کر دنیا

تِرے فراق میں دل سے نکال کر دنیا
چلا ہوں سِکے کی مانند اچھال کر دنیا
بڑھا لیا تِرے دامان کی طرف اک ہاتھ
اور ایک ہاتھ میں رکھی سنبھال کر دنیا
میں اپنے حجرے میں نان و نمک پہ قانع تھا
وہ چل دیا مِری جھولی میں ڈال کر دنیا
میں برق پا ہوں ابھی تک سو راستہ دے مجھے
میں گر پڑوں تو مجھے پائمال کر دینا
ہماری کھوج میں پھرتے ہیں انفس و آفاق
ہم ایسے دربدروں کا خیال کر دنیا
تِری ہتھیلی پہ تازہ ہے میرا خون ابھی
تُو میری موت کا کچھ تو ملال کر دنیا

محسن چنگیزی 

No comments:

Post a Comment