Thursday, 29 October 2015

کب مری حلقہ وحشت سے رہائی ہوئی ہے

کب مِری حلقۂ وحشت سے رِہائی ہوئی ہے
دل نے اِک اور بھی زنجیر بنائی ہوئی ہے
اور کیا ہے مِرے دامن مِیں محبت کے سوا
یہی دولت مِری محنت سے کمائی ہوئی ہے
یہ میاں عشق ہے بچوں کا کوئی کھیل نہیں
تم نے اس دشت میں دیوار اٹھائی ہوئی ہے
تیری صورت کو میں دیکھوں تو گماں ہوتا ہے
تُو کوئی حُور ہے جو فرش پہ آئی ہوئی ہے
تم نہیں جانتے اپنوں سے بچھڑنے کا دکھ
میں نے اس کرب مِیں دنیا ہی بسائی ہوئی ہے
جب سے آیا ہوں میں اس دشتِ محبت کی طرف
خواب اپنے ہیں، مگر نیند پرائی ہوئی ہے
اِک پری زاد کے یادوں مِیں اتر آنے سے
زندگی وصل کی بارش مِیں نہائی ہوئی ہے
میں تمہیں اور کسی کا نہیں ہونے دوں گا
اب کہانی تو عجب  موڑ پہ آئی ہوئی ہے
تم گئے ہو یہ وطن چھوڑ کے جس دن سے سعیدؔ
اِک اداسی در و دیوار پہ چھائی ہوئی ہے
اب تو سو جا کسی انجان اداسی مِیں سعیدؔ
آنکھ بھی بھِیگ چکی رات بھی آئی ہوئی ہے

مبشر سعید

No comments:

Post a Comment