Thursday 29 October 2015

نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں سراغ جادہ

نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کہیں سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اوڑھ کر لبادہ
میرے روز و شب یہی ہیں کہ مجھی تک آ رہی ہیں
تیرے حسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ
سرِ انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
وہ نِگہ جو در حقیقت تھی نگاہ سے زیادہ
ہو برائے شامِ ہجراں لبِ ناز سے فروزاں
کوئی ایک شمع پیماں، کوئی اک چراغِ وعدہ

سرور بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment