Friday 23 October 2015

تھا حرف شوق صید ہوا کون لے گیا

تھا حرفِ شوق صید ہوا کون لے گیا
میں جس کو سن سکوں وہ صدا کون لے گیا
اک میں ہی جامہ پوش تھا عُریانیوں کے بیچ
مجھ سے مِری عبا و قبا کون لے گیا
احساس بِکھرا بِکھرا سا، ہارا ہُوا بدن
چڑھتی حرارتوں کا نشہ کون لے گیا
باتوں کا حُسن ہے نہ کہیں شوخئ بیاں
شہرِ نوا سے حرف و صدا کون لے گیا
میں کب سے ہوں اسیر سرابوں کے جال میں
نیلے سمندروں پہ گھٹا کون لے گیا
میخانہ چھوڑ گھر کی فضاؤں میں آ گئے
ہم سے متاعِ لغزشِ پا کون لے گیا
میں جب نہ تھا تو مجھ پہ بہت قہقہے لگے
احباب سے سرشتِ وفا کون لے گیا 

زبیر رضوی

No comments:

Post a Comment