دل کی سنے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
خود پر ہنسے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
اپنے لیے کبھی جو بنایا تھا راستہ
اس پر چلے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
بچھڑے تو اس سے ہیں مگر لگتا ہے اس طرح
خوابوں کا سلسلہ بھی نہیں ٹوٹتا کبھی
اور جاگتے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
منزل کی سمت بھی ہے زمانوں کا فاصلہ
گھر سے چلے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
وہ در بھی کھل نہیں سکا اور اس کے سامنے
ہم کو رکے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
کچھ اپنے حال پر بھی منورؔ ہے سوچنا
یہ سوچتے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment