Sunday 25 October 2015

دل کی سنے ہوئے بھی زمانے گزر گئے

دل کی سنے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
خود پر ہنسے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
اپنے لیے کبھی جو بنایا تھا راستہ
اس پر چلے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
بچھڑے تو اس سے ہیں مگر لگتا ہے اس طرح
خود سے مِلے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
خوابوں کا سلسلہ بھی نہیں ٹوٹتا کبھی
اور جاگتے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
منزل کی سمت بھی ہے زمانوں کا فاصلہ
گھر سے چلے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
وہ در بھی کھل نہیں سکا اور اس کے سامنے
ہم کو رکے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
کچھ اپنے حال پر بھی منورؔ ہے سوچنا
یہ سوچتے ہوئے بھی زمانے گزر گئے​

منور ہاشمی

No comments:

Post a Comment