دھرتی کے باسیوں میں نہ آکاشیوں میں تھا
تسبیح کوشیوں میں نہ شب باشیوں میں تھا
میں اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے ہلکان ہو گیا
سنتا ہوں چشمِ تر کی گہر پاشیوں میں تھا
کر کے جُدا کتاب کو متنِ کتب سے
یاروں کا سارا زورِ بیاں حاشیوں میں تھا
ہوتے ہی بند جسم کا بازار، کھل گیا
میں نامُراد رُوح کی قلاشیوں میں تھا
میں مرتشی ہی ایک گنہ گار واہ، واہ
وہ بھی تو سر سے تا بہ قدم راشیوں میں تھا
میں خیر تجھ کو پا نہ سکا، اور بات ہے
کیا کم ہے یہ کہ میں تِرے متلاشیوں میں تھا
حالانکہ اک کرن بھی نہ تھی جیبِ نُطق میں
مضطر بہ زعمِ خویش ضیا پاشیوں میں تھا
مجاز مضطر
No comments:
Post a Comment