Thursday 29 October 2015

دھرتی کے باسیوں میں نہ آکاشیوں میں تھا

 دھرتی کے باسیوں میں نہ آکاشیوں میں تھا

تسبیح کوشیوں میں نہ شب باشیوں میں تھا

میں اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے ہلکان ہو گیا

سنتا ہوں چشمِ تر کی گہر پاشیوں میں تھا

کر کے جُدا کتاب کو متنِ کتب سے

یاروں کا سارا زورِ بیاں حاشیوں میں تھا

ہوتے ہی بند جسم کا بازار، کھل گیا

میں نامُراد رُوح کی قلاشیوں میں تھا

میں مرتشی ہی ایک گنہ گار واہ، واہ

وہ بھی تو سر سے تا بہ قدم راشیوں میں تھا

میں خیر تجھ کو پا نہ سکا، اور بات ہے

کیا کم ہے یہ کہ میں تِرے متلاشیوں میں تھا

حالانکہ اک کرن بھی نہ تھی جیبِ نُطق میں

مضطر بہ زعمِ خویش ضیا پاشیوں میں تھا


مجاز مضطر

No comments:

Post a Comment