Thursday 29 October 2015

تیز ہوا میں دیپ جلایا جا سکتا ہے

تیز ہوا میں دِیپ جلایا جا سکتا ہے
لفظوں تک ادراک کا سایا جا سکتا ہے
در کو بھی دیوار بنایا جا سکتا ہے
غاصب کا دربار گرایا جا سکتا ہے
ہم ٹھہرے گمنام گھروں کے باسی، جگ میں
ہم پر ہر الزام لگایا جا سکتا ہے
تیری دِید پرستش کے قابل ہے جاناں
تیرا مُکھ تعویذ بنایا جا سکتا ہے
عشق نے مجھ کو یہ نقطہ تعلیم کیا ہے
خود مِیں ڈوب کے خود کو پایا جا سکتا ہے
آج یہاں پہ میلہ سا ہے دل والوں کا
آج یہاں پہ شعر سنایا جا سکتا ہے
خوابوں کو تو الفاظ میں لانا مشکل ہے
لفظوں سے تو خواب بنایا جا سکتا ہے
مجھ کو یہ سکھلاتے ہیں اہلِ صبر سعیدؔ
سر کٹوا کے دِین بچایا جا سکتا ہے

مبشر سعید

No comments:

Post a Comment