Friday 23 October 2015

کیسے کیسے دل بیتاب کے ارماں ترسے

کیسے کیسے دلِ بے تاب کے ارماں ترسے
تم وہ بادل تھے جو دھرتی پہ نہ کھُل کر برسے
کوچہ کوچہ پھِرے ہم لے کے بہت جنسِ وفا
کوئی کھِڑکی نہ کھُلی، کوئی نہ جھانکا در سے
کون آئے گا تعاقب میں ہمارے دیکھیں
سُوئے صحرا چلے ہم رُوٹھ کے اپنے گھر سے
وقت بے رحم ہے ہاتھوں سے کہیں چھِین نہ لے
وہ جو ہم مانگ کے لائے ہیں تمہارے در سے
وہ نہ دن آئے کہ شہرت مِلے تحریروں کو
اک خاموش تعلق رہے نامہ بر سے
ہم بھی مصلوب ہیں اس عہد میں عیسیٰ کی طرح
نام لکھیے گا ہمارا بھی تو آبِ زر سے

زبیر رضوی

No comments:

Post a Comment