Friday 23 October 2015

بقدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے

بقدرِ حوصلہ کوئی کہیں، کوئی کہیں تک ہے
سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے
نہ ہو اِنکار تو اثبات کا پہلو ہی کیوں نکلے
مِرے اِصرار میں طاقت فقط تیری’نہیں‘ تک ہے
اُدھر وہ بات خوشبو کی طرح اُڑتی تھی گلیوں میں
اِدھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہمنشیں تک ہے
نہیں کوتاہ دستی کا گِلہ اتنا غنیمت سے
پہنچ ہاتھوں کی اپنے، اپنے جیب و آستیں تک ہے
سیاہی دل کی پھُوٹے گی تو پھر نس نس سے پھُوٹے گی
غلامو! یہ نہ سمجھو داغِ رُسوائی جبیں تک ہے
پھر آگے مراحل طے ہو رہیں گے ہمتِ دل سے
جہاں تک روشنی ہے، خوفِ تاریکی وہیں تک ہے
الٰہی بارشِ ابرِ کرم ہو، فضل دونی ہو
کہ باقرؔ کی تو آمد بس اسی دل کی زمیں تک ہے

سجاد باقر رضوی

No comments:

Post a Comment