Saturday 31 October 2015

تجھ سے پہلے جو تمنا تھی وہی ہے اب تک

تجھ سے پہلے جو تمنا تھی وہی ہے اب تک
تجھ کو پا کر بھی کسی شے کی کمی ہے اب تک
ہمیں جینا ہے ابھی نِت نئے الزام نہ دو
ہم نے کب بات تمہیں دل کی کہی ہے اب تک
تجھ سے مل کر بھی تِرے ہجر کے صدمے نہ گئے
اس مسرت میں بھی احساسِ غمی ہے اب تک
ایسی تنہائی کہ آنسو بھی نہیں آنکھوں میں
اور یہ رات کہ تاروں سے بھری ہے اب تک
کس کو سمجھائیں کہ ایوبؔ بڑی چیز تھے ہم
ہو گئے خاک، مگر نام وہی ہے اب تک

ایوب رومانی

No comments:

Post a Comment