تجھ سے پہلے جو تمنا تھی وہی ہے اب تک
تجھ کو پا کر بھی کسی شے کی کمی ہے اب تک
ہمیں جینا ہے ابھی نِت نئے الزام نہ دو
ہم نے کب بات تمہیں دل کی کہی ہے اب تک
تجھ سے مل کر بھی تِرے ہجر کے صدمے نہ گئے
ایسی تنہائی کہ آنسو بھی نہیں آنکھوں میں
اور یہ رات کہ تاروں سے بھری ہے اب تک
کس کو سمجھائیں کہ ایوبؔ بڑی چیز تھے ہم
ہو گئے خاک، مگر نام وہی ہے اب تک
ایوب رومانی
No comments:
Post a Comment