Sunday 1 November 2015

دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی

دیکھا جو حسنِ یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چل گئی
ہم تم مِلے نہ تھے تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
ساقی تِری شراب جو شیشے میں تھی پڑی
ساغر میں آ کے اور بھی سانچے میں ڈھل گئی
دشمن سے پھِر گئی ہے نِگہِ یار، شکر ہے
اِک پھانس تھی کہ دل سے ہمارے نکل گئی
پینے سے کر چکا تھا توبہ مگر جلیلؔ
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment