Tuesday 27 October 2015

مل بھی جاتا جو کہیں آب بقا کیا کرتے

مل بھی جاتا جو کہیں آبِ بقا، کیا کرتے
زندگی خود بھی تھی جینے کی سزا، کیا کرتے
سرحدیں وہ نہ سہی، اپنی حدوں سے باہر
جو بھی ممکن تھا کِیا، اس کے سوا کیا کرتے
ہم سرابوں میں سدا پھول کھلاتے گزرے
یہ بھی تھا آبلہ پائی کا صِلا کیا کرتے
جس کو موہوم لکیروں کا مُرقع کہیے
لوحِ دل پر تھا یہی نقشِ وفا کیا کرتے
اب وہ شعلوں کا قفس ہو کہ لہو کی خوشبو
دل پہ لہراتی رہی برقِ ادا کیا کرتے
مانگنے کو تو یہاں اپنے سوا کچھ بھی نہ تھا
لب پہ آتا بھی اگر حرفِ دعا، کیا کرتے
ہم کو خود غرضِ تمنا کا سلیقہ بھی نہ تھا
وہ بھی تنویرؔ بھلا عذرِ جفا، کیا کرتے

تنویر احمد علوی

No comments:

Post a Comment