جرم اظہارِ تمنا، آنکھ کے سر آ گیا
چور جو دل میں چھُپا تھا، آج باہر آ گیا
میرے لفظوں میں حرارت میرے لہجے میں مٹھاس
جو کچھ ان آنکھوں میں تھا، میرے لبوں پر آ گیا
جن کی تعبیروں میں تھی اِک عمر کی وارفتگی
پھر نگاہوں میں انہیں خوابوں کا منظر آ گیا
شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر
دل کو جانے کیا ہوا، میں شام سے گھر آ گیا
پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت
اب یہ دُکھ ہے، پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا
ہم دیوانوں کے لیے تھیں وسعتیں ہی وسعتیں
ختم جب صحرا ہُوا، آگے سمندر آ گیا
تم نے باقرؔ دل کا دروازہ کھُلا رکھا تھا کیوں
جس کو آنا تھا، وہ آخر درد بن کر آ گیا
چور جو دل میں چھُپا تھا، آج باہر آ گیا
میرے لفظوں میں حرارت میرے لہجے میں مٹھاس
جو کچھ ان آنکھوں میں تھا، میرے لبوں پر آ گیا
جن کی تعبیروں میں تھی اِک عمر کی وارفتگی
پھر نگاہوں میں انہیں خوابوں کا منظر آ گیا
شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر
دل کو جانے کیا ہوا، میں شام سے گھر آ گیا
پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت
اب یہ دُکھ ہے، پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا
ہم دیوانوں کے لیے تھیں وسعتیں ہی وسعتیں
ختم جب صحرا ہُوا، آگے سمندر آ گیا
تم نے باقرؔ دل کا دروازہ کھُلا رکھا تھا کیوں
جس کو آنا تھا، وہ آخر درد بن کر آ گیا
سجاد باقر رضوی
No comments:
Post a Comment