چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو
محبتوں کے زمانے گزر گئے اب تو
نہ آ ہٹیں ہیں نہ دستک نہ چاپ قدموں کی
نواحِ جاں سے صدا کے ہنر گئے اب تو
صبا کے ساتھ گئی بوئے پیرہن اس کی
مسافتیں ہیں کڑی دستِ نا رسائی کی
تمام راستے دل میں ٹھہر گئے اب تو
بسا لے جا کے کہیں تُو بھی گوشۂ حرماں
جو تیرے چاہنے والے تھے مر گئے اب تو
مغنی تبسم
No comments:
Post a Comment