Tuesday 27 October 2015

چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو

چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو
محبتوں کے زمانے گزر گئے اب تو
نہ آ ہٹیں ہیں نہ دستک نہ چاپ قدموں کی 
نواحِ جاں سے صدا کے ہنر گئے اب تو 
صبا کے ساتھ گئی بوئے پیرہن اس کی 
زمیں کی گود میں گیسو بکھر گئے اب تو 
مسافتیں ہیں کڑی دستِ نا رسائی کی 
تمام راستے دل میں ٹھہر گئے اب تو 
بسا لے جا کے کہیں تُو بھی گوشۂ حرماں 
جو تیرے چاہنے والے تھے مر گئے اب تو 

مغنی تبسم

No comments:

Post a Comment