Friday 30 October 2015

ترے خیال کا چرچا ترے خیال کی بات

تِرے خیال کا چرچا تِرے خیال کی بات
شبِ فراق میں پیہم رہی وصال کی بات
تم اپنی چارہ گری کو نہ پھر کرو رُسوا
ہمارے حال پہ چھوڑو ہمارے حال کی بات
کماں سی ابرو کا عالم عجیب ہے دیکھو
فلک کے چاند سے بہتر ہے اس ہلال کی بات
یہی فسانہ رہا ہے جنوں کے صحرا میں
کبھی فراق کے قصے، کبھی وصال کی بات
بہار آئی تو کھل کر کہا ہے پھولوں نے
یہ کس نے چھیڑ دی گلشن میں پھر جمال کی بات
تُو اپنے آپ میں تنہا ہے میری نظروں میں
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں تِرے مثال کی بات
بِنا طلب کے عطا کر رہا وہ وہ مجھ کو
لبوں پہ میرے نہ آئے کبھی سوال کی بات

اندرا ورما

No comments:

Post a Comment