Tuesday, 27 October 2015

سمندر کا تماشا کر رہا ہوں

سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
میں ساحل ہو کے پیاسا مر رہا ہوں
اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈوبنے سے ڈر رہا ہوں
میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں
قفس میں مجھ پہ جو بیتی سو بیتی
چمن میں بھی شکستہ پر رہا ہوں
اٹھے گا حشر کیا محشر میں مجھ پر
میں خود ہنگامۂ محشر رہا ہوں
کَسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں
میں سچائی کی خاطر مر رہا ہوں
وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
میں جس پتھر کو سجدے کر رہا ہوں
مِری گردش میں ہر سازِ الم ہے
جہانِ درد کا محور رہا ہوں
بنائی جو مِرے دستِ ہنر نے
اسی تصویر سے اب ڈر رہا ہوں
تراشے شہر میں نے بخشؔ کیا کیا
مگر میں خود سدا بے گھر رہا ہوں

بخش لائلپوری

No comments:

Post a Comment