تھی دشت کو جو آس بہت بے اساس تھی
بادل تمام آگ تھے، دریا کو پیاس تھی
ہر شخص مطمئن تھا، کسی کو پتہ نہ تھا
ڈھانپے ہوئے بدن کی صدا بے لباس تھی
مجھ سے یہ کہہ سکا نہ گئی رات کا سکوت
خوشبو تمام ہو کے ہَوا کیوں اداس تھی
تھی بے نمک مِری ہی زباں ورنہ سچ ہے یہ
نمکین پانیوں میں غضب کی مٹھاس تھی
توڑا گیا نہ اس سے سیہ رات کا حصار
حالانکہ روشنی کی سند اس کے پاس تھی
منظر کھُلا تھا کیسا دریچے کی پُشت پر
آوارہ رنگ رنگ نگاہِ قیاس تھی
منظورؔ ڈھونڈ لاؤں گا وہ دن کہاں سے جب
بے آئینہ بھی آنکھ مِری روشناس تھی
حکیم منظور
No comments:
Post a Comment