Thursday 29 October 2015

مارنے والا ہے کوئی کہ ہے مرنے والا

مارنے والا ہے کوئی، کہ ہے مرنے والا
اسی مٹی میں ہے آخر کو اترنے والا
جانے کس چیز کو کہتے ہیں مکافات عمل
اور کرتا ہے کوئی، اور ہے بھرنے والا
ساحلِ مرگ ہے منزل سبھی تیراکوں کی
ڈوبنے والا بھی ہے، پار اترنے والا
چشم و دل کام میں لاؤ کہ ابھی مہلت ہے
اور کچھ دن میں یہ ساماں ہے بکھرنے والا
خوف یوں تو ہیں بہت راہِ وفا میں، لیکن
ڈٹ بھی جاتا ہے کسی موڑ پہ ڈرنے والا
تہ کرو بسترِ شب، موند لو خوابوں بھری آنکھ
دل کی لو گل کرو، سورج ہے ابھرنے والا
خود گزر جاؤں کہیں جاں سے، یہ طے ہے لیکن
جان لے، میں تِرے ہاتھوں نہیں مرنے والا

ابرار احمد

No comments:

Post a Comment