جدائیوں کے زمانے کب تک، نجانے کب تک
تم آؤ گے یہ بتانے کب تک، نجانے کب تک
میں روٹھ بیٹھا ہوں جب سے، تم سے یہ سوچتا ہوں
کہ آ رہے ہو منانے کب تک، نجانے کب تک
اب آ بھی جاؤ کہ تازگی زندگی میں آئے
ہے آس مردہ، حواس مردہ اور ایک میں نے
جنازے گھر سے اٹھانے کب تک، نجانے کب تک
مِری محبت تو کب کی رخصت بھی ہو چکی ہے
گراؤ گے شامیانے کب تک، نجانے کب تک
اے یار! میں ہار کر بھی خوش ہوں کہ یار جیتا
بجاؤ گے شادیانے کب تک، نجانے کب تک
لو میری سرکش وفا کا گھوڑا بھی اَڑ گیا ہے
لگاؤ گے تازیانے کب تک، نجانے کب تک
اے عشق! یونہی مزار پر اب فضول تُو نے
مرید اپنے نچانے کب تک، نجانے کب تک
عامر امیر
No comments:
Post a Comment