Wednesday 28 October 2015

سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا

سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارا ہوا
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہ ہے شاخِ شجر پہ وارا ہوا
چراغ دشت بجھا اور ملا اشارۂ غیب
کہ آسمان پہ ظاہر کوئی ستارا ہوا
کبھی مِرا چمنِ درد سوکھتا ہی نہیں
ردا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment