سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارا ہوا
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہ ہے شاخِ شجر پہ وارا ہوا
چراغ دشت بجھا اور ملا اشارۂ غیب
کبھی مِرا چمنِ درد سوکھتا ہی نہیں
ردا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment