Sunday 25 October 2015

تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں

تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں
دُور ہا دُور آ چکا ہوں میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں
اس گمانِ گماں کے عالم میں
آخرش کیا بھُلا چکا ہوں میں
اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں
میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چکا ہوں میں
حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چکا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رَما چکا ہوں میں
نہیں اِملا درست غالبؔ کا
شیفتہؔ کو بتا چکا ہوں میں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment