Thursday 29 October 2015

کبھی اپنے عشق پہ تبصرے کبھی تذکرے رخ یار کے

کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلسمِ حسنِ خیال ہے، کہ فریب تیرے بہار کے
سرِ بام جیسے ابھی ابھی چھپ کوئی گیا ہے پکار کے
سیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دید کی، یہی دن ہیں آمدِ یار کے
ابھی اور ماتمِ رنگ و بُو کہ چمن کو ہے طلبِ نمو
تِرے اشک ہوں کہ مِرا لہو، یہ امیں ہیں فصلِ بہار کے
غمِ روز و شب کی امین ہے یہ حیات پھر بھی حسین ہے
کہیں دھوپ عارضِ دوست کی، کہیں سائے گیسوئے یار کے

سرور بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment