Tuesday 27 October 2015

ہوں ایک وقت سے ناپختہ کار ایسا ہی

ہوں ایک وقت سے ناپختہ کار ایسا ہی

رہا ہے مجھ کو سرابوں سے پیار ایسا ہی

میں کیا سمجھ کے کہوں گا بدل گیا موسم

میں فصلِ فصل تھا بے اختیار ایسا ہی

اسیرِ ذات بنوں گا یہ میں نے کیا سوچا

تھا اس کی بات کا کچھ اعتبار ایسا ہی

تکلفات کا آئینہ دے رہا تھا فریب

بھرا ہوا تھا دلوں میں غبار ایسا ہی

مجھے خبر تھی مِرے ساتھ میرا دشمن ہے

رہا میں چُپ کہ میں تھا وضع دار ایسا ہی

ہمارے شہر میں پُجتے ہیں چڑھتے سورج بس

چلا کِیا ہے یہاں کاروبار ایسا ہی

خرید سکتا نہیں اس کو کوئی اے منظورؔ

دیا ہے اپنے قلم کو وقار ایسا ہی


حکیم منظور 

No comments:

Post a Comment