ہوں ایک وقت سے ناپختہ کار ایسا ہی
رہا ہے مجھ کو سرابوں سے پیار ایسا ہی
میں کیا سمجھ کے کہوں گا بدل گیا موسم
میں فصلِ فصل تھا بے اختیار ایسا ہی
اسیرِ ذات بنوں گا یہ میں نے کیا سوچا
تھا اس کی بات کا کچھ اعتبار ایسا ہی
تکلفات کا آئینہ دے رہا تھا فریب
بھرا ہوا تھا دلوں میں غبار ایسا ہی
مجھے خبر تھی مِرے ساتھ میرا دشمن ہے
رہا میں چُپ کہ میں تھا وضع دار ایسا ہی
ہمارے شہر میں پُجتے ہیں چڑھتے سورج بس
چلا کِیا ہے یہاں کاروبار ایسا ہی
خرید سکتا نہیں اس کو کوئی اے منظورؔ
دیا ہے اپنے قلم کو وقار ایسا ہی
حکیم منظور
No comments:
Post a Comment