Saturday, 24 October 2015

اے دل نشیں تلاش تری کو بہ کو نہ تھی

اے دل نشیں تلاش تری کو بہ کو نہ تھی 
اپنے سے اِک فرار تھا وہ جستجو نہ تھی
اظہارِ نارسا سہی وہ صورتِ جمال
آئینۂ خیال میں بھی ہو بہو نہ تھی
کیا سحر تھا کہ ہنستے ہوئے جان دے گئے 
وہ بھی، کہ جن کو غمِ آرزو نہ تھی
کیا جانے اہلِ بزم نے کیا کیا سمجھ لیا 
اخفائے آرزو تھی وہ، گفتگو نہ تھی
وہ کون سی سحر تھی کہ روئی نہ پھول پھول
وہ شام کون سی تھی، کہ غم سے لہو نہ تھی
ہم تو فریفتہ تھے ضیاؔ! دِل کی آنچ پر 
منظور محض دِلکشئ رنگ و بو نہ تھی

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment