Wednesday 21 October 2015

اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں

اِک ڈھیرِ راکھ میں سے شرر چُن رہا ہوں میں
خوابوں کے درمیان خبر چُن رہا ہوں میں
کیا دل خراش کام ہوا ہے مِرے سپرد
اک زرد رُت کے برگ و ثمر چُن رہا ہوں میں
اک خواب تھا کہ ٹُوٹ گیا خوں کے حبس میں
اب تُند دھڑکنوں کے بھنور چُن رہا ہوں میں
کیا جانے اس کے خط میں دھواں کیا ہے حرف حرف
مفہوم چُن رہا ہوں اثر چُن رہا ہوں میں
اے رمز آشنائے تجسس! ادھر بھی دیکھ
اندھے سمندروں سے گُہر چُن رہا ہوں میں
وہ مُستقل غُبار ہے چاروں طرف، کہ اب
گھر کے تمام روزن و در چُن رہا ہوں میں
بانیؔ نظر کا زاویہ بدلا ہے اس طرح
اب ہر فضا سے چیزِ دِگر چُن رہا ہوں میں

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment